.........عنــوان ...
" نبـی کریـم صـــــلی الــلـہ عــــلیـہ وســـلـم کـــــی مـکـی زنــدگــی"
از✍🏻 مــحمد مــشــرفـــــ خــان ( کٹــــیہار ی )
متـــــعلم : جامعـہ اشـرفیہ مــبارکــ پـور
بموقع ١٥۰۰ سو سالہ جشن ولادت ـ
یوں تو پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت اور انسانی معاشرت کی تکميل کے لئے بہترین آلہ وزریعه ہے ـ آپ کی حيات مبارکه کا ہر گوشہ ابن آدم کے لئے بہترین نمونه اور آئیڈیل ہے۔
چنانچہ : ارشاد باری ہے ،، لـــقد كـــان لكــم فــــي رســــول الــلــہ اســـوة حســــــنــــة ،،
ترجمہ :- بے شک! رســــول اللہ صــــــــــــــلی علیـــــــه وســـــــــلم کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونه ہے ۔ خواه زندگی کا کوئی بھی گوشه ہو . چاہے وہ سماجیت ، معاشرت اور تجارت کا گوشہ ہو یا سیادت و قیادت اور امامت کا ميدان ہو ، تمام شعبہاے زندگی میں آپ کی ذات کامل و اکمل لائق تقليد ہے ۔
لہــــــذا ! آپ کی حيات طيبه کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسيم کیا جا سکتا ہے.
( ۱) مکی زندگی (۲) مــدنـی زندگی ـ
ہم یہاں صرف ،،مـــــکی زندگی ،، کے اہم پہلو کو سپرد قرطاس کریں گے ـ
ہمارے پیارے نبی صــــــلی الــلہ علیہ وسلم کا نــــام : محمد ، کنیت، ابو القاسم اور لقب ، امين و صدیق ہے ـ
پـیـدائـــش : حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی ولادت باسعادت باختلاف روایت ،، ۹ ،، ربيع الاول ســــــنــــہ ۱ عام الفيل بروز دو شنبه بـوقـت صبح صـــــادق ، مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر حضرت عبد المطلب کے گھر ہوئی ۔ ( الرحيق المختوم صـــــــــــ ٨٣) لیکن ! راجح اور قول مشہور یہی ہے کہ آپ کی ولادت ،، ١٢ ،، ربيع الاول عام الفیل کے دوسرے سال ہوئی ۔
ســـلسـلہ نـسـب :-
بقول : شارح بخاری حضرت مفتی شـــریـفــــــــ الحق الامـــــجــــدي رحمة الله علیه کے ،، چالیس واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت اســـــماعیـل علیہ السلام تک پہنچتا ہے ،، ـ
.. والـــــــدیــن : ـ
آپ کے والد گرامی کا اسم شریف حضرت عــــــــبــــــد الــــــلــه بے . اور والــــده محترمه کا نام مبارک حضرت آمـــــنــــہ رضی الله عنهما ہے ـ
آپ صـــــلی اللہ عـــلیہ وســلم کے والد گرامی حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ کی وفات آپ کی ولادت مبارک سے پہلے ہی چکی تھی ـ
پـرورش:ـ
آپ صــــــلى الله علـــيه وســلم نے بعد ولادت سب سے پہلے اپنی والده محترمه کا دودھ نوش فرمایا ـ بعده ابو لہب کی باندی ثويبه نے دودھ پلایا. پھر آپ اپنی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ کا دودھ نوش فرمایا اور آپ تقريباً چار سال تک حضرت حلیمہ کے گھر رہے ، وہیں پروان چڑھے اور وہیں پہلی مرتبہ شق صدر کا واقعہ پیش آیا ۔
واقــعہ شـــق صـدر : ـ
اس کی تفصيل :. کچھ اس طرح ہے که حضرت انـــــــس رضی الله عنہ سے مروی ہے کے رسـول كريم صـــلى الله عــلیـــه وســــــــلم کے پاس حضرت جــــبرئیــــل علیــــہ الســـلام تشریــف لائے اور آپ صـــلى اللــه علیـــه وســـلم کو لٹایا اور صدر مبارک کو چاک کر کے دل کو نکالا اور آبـــ زم زم سے دھویا پھر دل مبارک کو اس کی جگہ رکھ شــــگافـــــ بند کیا ۔
جب یہ معاملہ حضرت حلیمہ کے بچوں نےدیکھا تو دوڑتے ہوئے اپنی والده کے پاس آئے کہا: کہ بھائی،، محمد ،، کو کسی نے قتل کردیا یہ خبر سنتے ہی حضرت حلیمہ تیز رفتاری سے آئیں اور وہ دیکھتی ہیں کہ حضرت محمد صــــــــــلى الله علـــیہ وســـلم کا چہرہ مبارک کا رنگ اترا ہوا ہے۔ اس واقعے کہ بعد حضرت حليمہ کو خطرہ لاحق ہونے لگا۔ اس واقعے کی وجہ سے آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے گھر واپس کر آئیں ۔
پــہــــلا ســـفـــــر :۔
آپ نے اپنی زندگی کا پہلا سفر ،۶ ، چھ سال کی عمر میں اپنی والدہ محترمه (سلام الله عليها)کے ساتھ مدینہ کے لئے کیا، اور واپسی میں آپ کی والدہ محترمہ بیمار ہوئیں اور مکہ و مدینہ کے درمیان ،،ابوا ،، نامی
جگہ پر انتقال کر گئیں ـ
اس کے بعد آپ صــــلى الـــله علـــيه وســلم کی پرورش دادا جان حضرت عبـد المــطـلـب کی کفالت میں ہوئی، پھر وہ بھی آپ کو آٹھ سال کی عمر میں داعی اجل کی صدا پر لبيك کہتے ہوئے اس غیر مستقل دنیا کو چھوڑ گئے.
اب آپ کی کفالت کی پوری ذمہ داری آپ کے چچا ابو طالب کے ذمہ اگئی اس نے بھی آپ کی پرورش بحسن و خوبی ، دل و جان سے کی اور تا دم مرگ شانہ بشانہ ہر مشکل میں ساتھ رہے . اور بغرض تجارت آپ نے اپنے چچا کے ساتھ بارہ سال کی عمر شریف میں دوسری دفعہ ملک شام کا سفر کیا .
اسی طرح آپ کی شب و روز گزرتے چلے گئے اس درمیان آپ لوگوں میں امین و صدیق جیسے اوصاف حمیده اور حصال جلیلہ سے پہچانے جانے لگے .
نـــــــکاح :
آپ کی عمر شریف ۲۵ پچیس سال ہوئی اس وقت تک آپ کی امانت داری، راست گوئی اور مکارم اخلاق کی شہرت پورے مکہ میں شائع و ذائع ہو چکی تھی ، جس کی وجہ سے حــــضــرت خدیـــــجــہ رضـــــی اللہ عــنہا نے اپنا مال آپ کے سپرد کیا اور اپنے غلام ٬٫میسرہ ٫٬کی معیت میں آپ صلى الله علیه وسلم کو بغرض تجارت شام روانہ کیا.
جب پیارے آقا (صلی الله علیه وسلم ) شام سے مکہ واپس آئے تو حضرت خدیجہ نے اپنے مال میں ایسی خیر و برکت دیکھیں جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھیں تھی. ادھر غلام میسرہ نے حضور صلى الله علیه وسلم کے شریں اخلاق ، بلند پایہ کردار، موزوں انداز فکر، راست کوئی اور دیگر اوصاف حمیدہ کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے جس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت خدیجہ کو عرصہ دراز سے جس مطلوب کی طلب تھی گویا وہ گم گشتہ گوہر نایاب دستیاب ہو گیا ہو۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا چالیس سالہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ اور کافی دولت وثروت اور عزت و عفت، نیک سیرت پاک طینت تھیں . آپ کا تعلق ایک رئیس خاندان اور عالی جاہ نسب سے تھا .
آپ نے شوہر اول کے وفات کے بعد کسی سے نکاح نہ کی تھی با وجود اس کے کہ بڑے بڑے گھروں سے نکاح کا پیغام آتا ـ
لیکن ! قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا آپ نے اپنے لئے نکاح کا پیغام بارگاہ اقدس میں بھیجوایا اور پیارے آقا (صلى الله علیه وسلم )نے اس پیغام کو منظوری کا شرف بخشا ـ
حضور کے چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ذریعے معاملہ طے قرار پایا اور اور مہر میں ۲۰٫٫ ٫٫ بیس اونٹ رکھا پھر شادی ہوئی جس میں بنی ھاشم کے رؤسا اور دیگر سردان قريش شریک ہوئے ۔
........... اولاد ..........
حضرت ابراہیم کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ کے بطن پاک سے تھیں، سب سے پہلے حضرت قاسم پیدا ہوئے اور انہیں کے نام پر آپ کی کنیت پڑی ۔ پھر حضرت زینب ، رقیہ ، ام کلثوم، فاطمہ اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔( عبداللہ کا لقب طیب وطاهر تھا) اور بچپن ہی میں انتقال کر گئے .
البتہ ! بیٹیوں میں سے ہر ایک نے اسلام پایا اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ سب کا انتقال آپ کی حیات ظاهری ہی میں ہو گیا .
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے آپ بے پناہ محبت کرتے تھے آپ نے ان کی حیات طیبہ میں سے کسی سے بھی نکاح نہیں فرمایا ۔
اسی طرح ایام زندگی گزرتے گئے حتی کہ آپ کی عمر شریف ۔ ۳۵ ۔سال کو پہنچ گئی اس درمیان بہت سارے معاملات در پیش ہوئے یہاں سب کی تفصیلات ضبط تحریر امرد شوار ہے ۔
چنانچہ: اس درمیان ایک اہم معاملہ تعمیر کعبہ اور نصب حجر اسود کا رونما ہوا جو کہ قبائل عرب کے درمیان متنازع فيه معاملہ تھا ـ لیکن ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر تجویز پیش کر کے لوگوں کے درمیان تنازع کا خاتمہ اورجديد فتنوں کا سد باب کیا اور اس عظیم مشترکہ کام میں سبھوںں کو شامل فرمایا ۔
اس کے علاوہ اور بھی دیگر اہم پہلو ہے جو قابل ذکر ہے .
لیکن ! درازئ تحریر سے بچتے ہوئے بس ! قبل از اعلان نبوت کا اجمالی خاکہ پیش کر دے رہا ہوں تا کہ قارئین کو بوجھل ، اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔
قبل اعلان نــوت کا اجمــالی خــــاکـــہ:ـ
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ان تمام ترخوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پائے جاتے ہیں ۔
آپ اصابت فکر، دور اندیش اور حق پسندی کا کوہ ہمالہ تھے ،
آپ کی حسن فراست، پختگئ فکر اور اصابت رائے کے مقابل
دنیا کا کوئی بھی بڑے سے بڑا دانا و بینا نہیں آسکتا ہے. آپ نے اپنی شاداب عقل ، روشن خیال اور عمدہ بصیرت سے زندگی کے صحیفے لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا،اور جن خرافات میں لوگوں کو ملوث پاتے ان سے بیزاری اور ہدایت کی تلقین فرماتے آپ پوری زندگی رسومات بد ، خصال بد اور دیگر امور سیئات سے بچتے رہے اور لوگوں کو بچاتے رہے اور اپنے امتیوں کو بچنے کی تلقین فرماتے رہے ـ آپ پوری زندگی لوگوں کو دعوت دین اور معبود حقیقی کی پرستش کا پیغام سناتے رہے۔
حاصل کلام : یہ کہ اللہ نے آپ کو ہر عیب نقص سے پاک ، معصوم عن الخطا پیدا فرمایا .
بعد رب لم يزل پورے عالم میں آپ ہی کی ذات افضل واعلی، برتر و بالا ، آپ کا کوئی مثیل نہ ہی کوئی نظیر ہے
.. ــــــــــــــ ع ـــــــــــــــ ..
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ۔
تیرے خالق حسن و ادا کی قسم -